برا ہو کر بھی وہ اچھا بہت ہے
وہ جیسا ہے نہیں بنتا بہت ہے
نمک تو کم نہیں ہے روز و شب میں
سواد زندگی پھیکا بہت ہے
فریب سادگی ہے یا شرارت
میں یہ سمجھا کہ وہ میرا بہت ہے
تجھے سوچا کیا شب بھر سنوارا
نہیں ایسا نہیں ویسا بہت ہے
اسی سے بات کرنا ہے کہ جس نے
ہمیں سمجھا نہیں پوچھا بہت ہے
ہمیں کچھ دیر میں منزل ملے گی
ہمارا راستہ سیدھا بہت ہے
یہ بندہ کون ہے کچھ بدرؔ جیسا
وہی جو بھیڑ میں تنہا بہت ہے
غزل
برا ہو کر بھی وہ اچھا بہت ہے
بدر واسطی