بلبل کا دل خزاں کے صدمے سے ہل رہا ہے
گل زار کا مرقع مٹی میں مل رہا ہے
عالم میں جس نے جس نے دیکھا ہے عالم ان کا
کوئی تو ہم سے کہہ دے قابو میں دل رہا ہے
رخصت بہار کی ہے کہرام ہے چمن میں
غنچے سے غنچہ بلبل بلبل سے مل رہا ہے
ہرگز شباب پر تم نازاں شرفؔ نہ ہونا
ملنے کو خاک میں ہے جو پھول کھل رہا ہے
غزل
بلبل کا دل خزاں کے صدمے سے ہل رہا ہے
آغا حجو شرف