بلندیوں سے وہ بے داغ نور ابھر آئے
ہزار رنگ تہی وسعتوں میں بھر آئے
کھلے نگاہ کی شاخوں پہ انتظار کے پھول
ہوا میں اڑتے ہوئے بادباں نظر آئے
لبوں سے بچھڑے ہوئے قہقہے تری مانند
رتیں گزر گئیں لیکن نہ لوٹ کر آئے
بجھی بجھی ہوئی آنکھیں بھنور بھنور چہرے
جب آفتاب کی لو بجھ رہی تھی گھر آئے
بلند و پست پہاڑوں کے سلسلوں کی طرح
ہم اپنے آپ کو بھی منتشر نظر آئے
ندی نشیب نما الجھنوں میں ڈوب گئی
نہاں سکوت تہہ آب سے ابھر آئے

غزل
بلندیوں سے وہ بے داغ نور ابھر آئے
مراتب اختر