EN हिंदी
بلندیوں کا تھا جو مسافر وہ پستیوں سے گزر رہا ہے | شیح شیری
bulandiyon ka tha jo musafir wo pastiyon se guzar raha hai

غزل

بلندیوں کا تھا جو مسافر وہ پستیوں سے گزر رہا ہے

مینا نقوی

;

بلندیوں کا تھا جو مسافر وہ پستیوں سے گزر رہا ہے
تمام دن کا سلگتا سورج سمندروں میں اتر رہا ہے

تمہاری یادوں کے پھول ایسے سحر کو آواز دے رہے ہیں
کہ جیسے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا مری گلی سے گزر رہا ہے

الگ ہیں نظریں الگ نظارے عجب ہیں راز و نیاز سارے
کسی کے جذبے چمک رہے ہیں کسی کا احساس مر رہا ہے

عجیب جوش جنوں ہے اس کا عجیب طرز وفا ہے میرا
میں لمحہ لمحہ سمٹ رہی ہوں وہ ریزہ ریزہ بکھر رہا ہے

نظر میں رنگین شامیانے محبتوں کے نئے فسانے
یہ کون ہے دل کے وسوسوں میں جو مجھ کو بے چین کر رہا ہے

تمام الفاظ مٹ چکے ہیں بس ایک صفحہ ابھی ہے باقی
اسے مسلسل میں پڑھ رہی ہوں جو نقش دل پر ابھر رہا ہے

وہ میرے اشکوں کے آئنے میں سجا ہے میناؔ کچھ اس طرح سے
کہ جیسے شبنم کے قطرے قطرے میں کوئی سورج سنور رہا ہے