بلند و پست حقیقت سے آشنا نہ ہوا
وہ دل کہ جس میں کوئی حرف مدعا نہ ہوا
وہ زندہ دل تھا میں سہتا رہا غم دنیا
اسی میں جان دی لیکن گریز پا نہ ہوا
چلا جو شب کا مسافر تو اس ادا سے چلا
کہ جب رکا تو در صبح رونما نہ ہوا
تمہیں بتاؤ کہ اس دل کا کیا کیا جائے
جو چوٹ کھا کے بھی چوٹوں سے آشنا نہ ہوا
ستارے توڑ لیے ہم نے زہد و تقویٰ کے
مگر جو حق عبادت تھا وہ ادا نہ ہوا
چلے چلو کہ ابھی صبح کی سیاہی ہے
سحر قریب ہے تارہ کوئی ہوا نہ ہوا
کلیمؔ درد محبت سمجھ میں کیوں آئے
وہی تو درد ہے جو درد لا دوا نہ ہوا

غزل
بلند و پست حقیقت سے آشنا نہ ہوا
کلیم احمدآبادی