بلانا اور نہ جانا چاہتا ہوں
مراسم بھی نبھانا چاہتا ہوں
تری قربت سے کچھ لمحے چرا کر
میں اپنے پاس آنا چاہتا ہوں
کہاں یہ طے نہیں کر پایا لیکن
کہیں میں بھاگ جانا چاہتا ہوں
کسی دن گردش ایام کو بھی
میں انگلی پر نچانا چاہتا ہوں
ضرورت تو نہیں تو ہے ضروری
تجھے اپنا بنانا چاہتا ہوں
بہت صحرا نوردی ہو چکی اب
ٹھکانے کا ٹھکانا چاہتا ہوں
اثر کرتی نہیں ہے نرم گوئی
میں اب نعرے لگانا چاہتا ہوں
غزل
بلانا اور نہ جانا چاہتا ہوں
ڈاکٹر اعظم