بلائے جاتے ہیں مقتل میں ہم سزا کے لیے
کہ اب دماغ نہیں عرض مدعا کے لیے
ازل کے روز ہمیں کون سے وہ تحفے ملے
کہ ہم سے دہر نے بدلے گنا گنا کے لیے
وہ وعدے یاد نہیں تشنہ ہے مگر اب تک
وہ وعدے بھی کوئی وعدے جو مے پلا کے لیے
وہ لمحہ بھر کی ملی خلد میں جو آزادی
تو قید ہو گئے مٹی میں ہم سدا کے لیے
شمار تار گریباں میں ہے جو الجھے ہوئے
وہ ہاتھ بھی تو ہمیں دیجیے دعا کے لیے
بہت گراں ہے اگر تم پہ انتظار بہار
ہمارا خون سر دست لو حنا کے لیے
غزل
بلائے جاتے ہیں مقتل میں ہم سزا کے لیے
وامق جونپوری