EN हिंदी
بلائے جاتے ہیں مقتل میں ہم سزا کے لیے | شیح شیری
bulae jate hain maqtal mein hum saza ke liye

غزل

بلائے جاتے ہیں مقتل میں ہم سزا کے لیے

وامق جونپوری

;

بلائے جاتے ہیں مقتل میں ہم سزا کے لیے
کہ اب دماغ نہیں عرض مدعا کے لیے

ازل کے روز ہمیں کون سے وہ تحفے ملے
کہ ہم سے دہر نے بدلے گنا گنا کے لیے

وہ وعدے یاد نہیں تشنہ ہے مگر اب تک
وہ وعدے بھی کوئی وعدے جو مے پلا کے لیے

وہ لمحہ بھر کی ملی خلد میں جو آزادی
تو قید ہو گئے مٹی میں ہم سدا کے لیے

شمار تار گریباں میں ہے جو الجھے ہوئے
وہ ہاتھ بھی تو ہمیں دیجیے دعا کے لیے

بہت گراں ہے اگر تم پہ انتظار بہار
ہمارا خون سر دست لو حنا کے لیے