EN हिंदी
بجھتی شمع کی صورت کیوں افسردہ کھڑے ہو کھڑکی میں | شیح شیری
bujhti shama ki surat kyun afsurda khaDe ho khiDki mein

غزل

بجھتی شمع کی صورت کیوں افسردہ کھڑے ہو کھڑکی میں

رفیق خیال

;

بجھتی شمع کی صورت کیوں افسردہ کھڑے ہو کھڑکی میں
دیکھو شام ہے کس درجہ دل کش اس دھوپ کی وردی میں

وہم و گماں کے صحراؤں میں پھول کھلے تری یادوں کے
اور چراغاں دور تلک ہے سانسوں کی اس وادی میں

قہر و غضب کے منبر پر ہاتھوں میں لیے کشکول وفا
جھانک رہا تھا سورج بھی کل غور سے ایک صراحی میں

دور کھڑا ہو کر میں اس لیے پہروں دیکھتا رہتا ہوں
قید بہت سی یادیں ہیں مری اس ویران حویلی میں

تہوں کی پیاس بھی سطح پر اب صاف دکھائی دیتی ہے
ڈھونڈ رہے ہیں جانے کیا یہ بادل نیلی چھتری میں

ایک ہے اندیشہ مجھ کو کہیں میرے مر جانے کے بعد
بیچ نہ دیں میرے گھر والے مری قیمتی غزلیں ردی میں

رنگ اور خوشبو کی مانند ہے میرا سراپا بھی صاحب
قید رکھے گا آخر کب تک وقت مجھے یوں مٹھی میں

بحر محبت کے ساحل کی سیر بہت کر لی ہم نے
آؤ ذرا اب ہم بھی دیکھیں بیٹھ کے پیار کی کشتی میں

حرص و ہوس کے سارے پجاری ایک جگہ ہیں آج جمع
وقت کی شاخ پہ شاید کوئی پھول کھلا ہے جلدی میں