بجھتی مشعل کی التجا جیسے
لوگ ہم کو ملے ہوا جیسے
کوئی انساں نظر نہیں آتا
ہر بشر ہو گیا خدا جیسے
ہاتھ کشکول کی طرح پائے
لب ملے ہم کو التجا جیسے
کر دیا ہے خدائے واحد نے
بند ہم پر در دعا جیسے
گرد آلود ایسے سوچیں ہیں
کوئی احساس ہو خفا جیسے
اکثر اوقات ایسے کام کیے
ہم نے ماؤں کی بد دعا جیسے
ایسے لگتا ہے ان سے اپنا نبیلؔ
ٹوٹ جائے گا رابطہ جیسے
غزل
بجھتی مشعل کی التجا جیسے
نبیل احمد نبیل