EN हिंदी
بجھتے سورج نے لیا پھر یہ سنبھالا کیسا | شیح شیری
bujhte suraj ne liya phir ye sambhaala kaisa

غزل

بجھتے سورج نے لیا پھر یہ سنبھالا کیسا

زیب غوری

;

بجھتے سورج نے لیا پھر یہ سنبھالا کیسا
اڑتی چڑیوں کے پروں پر ہے اجالا کیسا

تم نے بھی دیکھا کہ مجھ کو ہی ہوا تھا محسوس
گرد اس کے رخ روشن کے تھا ہالا کیسا

چھٹ گیا جب مری نظروں سے ستاروں کا غبار
شوق رفتار نے پھر پاؤں نکالا کیسا

کس نے صحرا میں مرے واسطے رکھی ہے یہ چھاؤں
دھوپ روکے ہے مرا چاہنے والا کیسا

زیبؔ موجوں میں لکیروں کی وہ غم تھا کب سے
گردش رنگ نے پیکر کو اچھالا کیسا