بجھنے نہ دو چراغ وفا جاگتے رہو
پاگل ہوئی ہے اب کے ہوا جاگتے رہو
سجدوں میں ہے خلوص تو پھر چاندنی کے ساتھ
اترے گا آنگنوں میں خدا جاگتے رہو
الفاظ سو نہ جائیں کتابوں کو اوڑھ کر
دانشوران قوم ذرا جاگتے رہو
کیسا عجیب شور ہے بستی میں آج کل
ہر گھر سے آ رہی ہے صدا جاگتے رہو
پہلے تو اس کی یاد نے سونے نہیں دیا
پھر اس کی آہٹوں نے کہا جاگتے رہو
پھولوں میں خوشبوؤں میں ستاروں میں چاند میں
کھولے گا کوئی بند قبا جاگتے رہو
تم بھی سنو کہ شہر خموشاں میں رات دن
سناٹے دے رہے ہیں صدا جاگتے رہو
جب بھی قلم کو میرے کبھی آئیں جھپکیاں
آنکھوں نے آنسوؤں سے لکھا جاگتے رہو
منصورؔ رت جگے تو مقدر ہیں آپ کا
جب تک جلے سخن کا دیا جاگتے رہو
غزل
بجھنے نہ دو چراغ وفا جاگتے رہو
منصور عثمانی