EN हिंदी
بجھنے لگے نظر تو پھر اس پار دیکھنا | شیح شیری
bujhne lage nazar to phir us par dekhna

غزل

بجھنے لگے نظر تو پھر اس پار دیکھنا

ایوب خاور

;

بجھنے لگے نظر تو پھر اس پار دیکھنا
دریا چڑھے تو ناؤ کی رفتار دیکھنا

اس آگہی کے آئینۂ خود مثال میں
خود اپنی ذات کو سر پیکار دیکھنا

آنکھوں سے رت جگوں کی حرارت نہیں گئی
اے یاد یار تشنۂ آزار دیکھنا

ہونٹوں پہ آ کے جم سی گئی خواہش وصال
اس ان کہی پہ لذت انکار دیکھنا

ہم وہ وفا پرست تجھے دیکھنے کے بعد
اپنی طرف بھی صورت دیوار دیکھنا

شاخ و ثمر تو منصف و قاتل کے ہو گئے
اب کس کے سر پہ گرتی ہے تلوار دیکھنا

یوں ہے کہ جب بچھڑنے لگیں دل سے دھڑکنیں
تب اس گلی میں صبح کے آثار دیکھنا

اب یہ دل و نگاہ کے بس میں نہیں رہا
ہر آئینے میں عکس رخ یار دیکھنا

ساحل کو موج لے گئی اور اس کو بادباں
خاور اب اس کے بعد نہ اس پار دیکھنا