بجھی ہے آتش رنگ بہار آہستہ آہستہ
گرے ہیں شعلۂ گل سے شرار آہستہ آہستہ
وہ اک قطرہ کہ برگ دل پہ شبنم سا لرزتا تھا
ہوا ہے بحر نا پیدا کنار آہستہ آہستہ
کبھی شور قیامت گوش انساں تک بھی پہنچے گا
کوئی سیارہ بدلے گا مدار آہستہ آہستہ
اڑا ہے رفتہ رفتہ رنگ تصویر محبت کا
ہوئی ہے رسم الفت بے وقار آہستہ آہستہ
سراب آرزو میں پھر کوئی منظر بھی چمکے گا
اٹھے گی دشت سے موج غبار آہستہ آہستہ
بہت دن تک سلاسل کی صدا آئی ہے زنداں سے
ملا ہے بے قراروں کو قرار آہستہ آہستہ
وہ سب ارباب جذب و شوق جن پر ناز تھا ہم کو
ہوئے ہیں ہوشمندی کے شکار آہستہ آہستہ
کبھی ملحوظ ہم کو بھی سخن میں ربط معنی تھا
ہوا ہے زہر غم آشفتہ کار آہستہ آہستہ
کہیں یارو تمہیں پھر گہری یاسیت نہ چھو جائے
رہو راہ طلب میں محو کار آہستہ آہستہ
غزل
بجھی ہے آتش رنگ بہار آہستہ آہستہ
اسلم انصاری