بجھی ہے آگ مگر اس قدر زیادہ نہیں
دوبارہ ملنے کا امکان ہے ارادہ نہیں
کیا ہے وقت نے یوں تار تار پیراہن
برہنگی کے سوا جسم پر لبادہ نہیں
ترا خیال ہے تنہائیاں ہیں اور میں ہوں
مرے نصیب میں اب وصل کا اعادہ نہیں
ملا بھی وہ تو کہاں اس کا نام لکھیں گے
کتاب زیست کا کوئی ورق بھی سادہ نہیں
نہ ذات میں کوئی منزل نہ کائنات میں ہے
سفر کروں تو کہاں کوئی میرا جادہ نہیں
ہوا کے ساتھ ہی شاید بدل گئی دنیا
کہ جام جام نہیں اور بادہ بادہ نہیں
خود اپنے سائے میں ہی بیٹھنا پڑا ناصرؔ
کوئی شجر مرے رستے میں ایستادہ نہیں
غزل
بجھی ہے آگ مگر اس قدر زیادہ نہیں
ناصر زیدی