بجھی بجھی سی ستاروں کی روشنی ہے ابھی
یہ رات کس کے اشاروں کو ڈھونڈھتی ہے ابھی
نہ جانے میری نظر ہی نہیں ہے جلوہ شناس
نہ جانے تیرے ہی جلووں میں کچھ کمی ہے ابھی
کچھ ایسے گونجتی ہے دل میں عہد رفتہ کی یاد
کہ جیسے تو نے کوئی بات مجھ سے کی ہے ابھی
کسی کے حسن سے کھیلی ہیں عمر بھر آنکھیں
یہ لگ رہا ہے نظر سے نظر ملی ہے ابھی
ہزار قافلے منزل پہ جا کے لوٹ آئے
مری نگاہ تری راہ ڈھونڈھتی ہے ابھی
سنبھل تو جائے طبیعت مگر ستم یہ ہے
کہ اس کے بعد بھی اک اور زندگی ہے ابھی
غزل
بجھی بجھی سی ستاروں کی روشنی ہے ابھی
صوفی تبسم