بجھی بجھی ہوئی آنکھوں میں گوشوارۂ خواب
سو ہم اٹھائے ہوئے پھرتے ہیں خسارۂ خواب
وہ اک چراغ مگر ہم سے دور دور جلا
ہمیں نے جس کو بنایا تھا استعارۂ خواب
چمک رہی ہے اک آواز میرے حجرے میں
کلام کرتا ہے آنکھوں سے اک ستارۂ خواب
میں اہل دنیا سے مصروف جنگ ہو جاؤں
کہ پچھلی رات ملا ہے مجھے اشارۂ خواب
عجب نہیں مری نیندیں بھی جل اٹھیں اس بار
دبا ہوا مرے بستر میں ہے شرارۂ خواب
غزل
بجھی بجھی ہوئی آنکھوں میں گوشوارۂ خواب
سالم سلیم