بجھے تو دل بھی تھے پر اب دماغ بجھنے لگے
ہوا ہے ایسی کہ سارے چراغ بجھنے لگے
یہ کیسی پیاس ہے اے اہل درد کچھ تو کہو
کہ تشنگی نہ بجھی اور ایاغ بجھنے لگے
یہیں کہیں سے تو گزرا تھا کاروان مراد
ہوائے دشت ٹھہر جا سراغ بجھنے لگے
ابھی تو دل میں فروزاں تھے یاد گل کے چراغ
ابھی سے کیوں مرے جذبوں کے باغ بجھنے لگے
ہوا سے لینی تھی داد مبارزت طلبی
بغیر بھڑکے ہی یہ کیوں چراغ بجھنے لگے
غزل
بجھے تو دل بھی تھے پر اب دماغ بجھنے لگے
طارق بٹ