EN हिंदी
بجھے تو دل بھی تھے پر اب دماغ بجھنے لگے | شیح شیری
bujhe to dil bhi the par ab dimagh bujhne lage

غزل

بجھے تو دل بھی تھے پر اب دماغ بجھنے لگے

طارق بٹ

;

بجھے تو دل بھی تھے پر اب دماغ بجھنے لگے
ہوا ہے ایسی کہ سارے چراغ بجھنے لگے

یہ کیسی پیاس ہے اے اہل درد کچھ تو کہو
کہ تشنگی نہ بجھی اور ایاغ بجھنے لگے

یہیں کہیں سے تو گزرا تھا کاروان مراد
ہوائے دشت ٹھہر جا سراغ بجھنے لگے

ابھی تو دل میں فروزاں تھے یاد گل کے چراغ
ابھی سے کیوں مرے جذبوں کے باغ بجھنے لگے

ہوا سے لینی تھی داد مبارزت طلبی
بغیر بھڑکے ہی یہ کیوں چراغ بجھنے لگے