بجھے ہو، ہاتھ مایوسی لگی ہے کیا
در الفت پہ اب کنڈی لگی ہے کیا
ابھی بھی تجھ در دل پر بتا جاناں
ہمارے نام کی تختی لگی ہے کیا
سمندر بوکھلایا پھر رہا ہے کیوں
کنارے پھر کوئی کشتی لگی ہے کیا
ہمیں تم سے ہمیشہ ملنے آیں کیوں
تمہارے پاؤں میں مہندی لگی ہے کیا
کٹے ہیں پر تو کٹنے دو میاں سوچو
ارادوں پر کوئی قینچی لگی ہے کیا
جہاں کل عشق پر چرچا ہوا گھنٹوں
وہیں اب حسن کی منڈی لگی ہے کیا
ہیں آنکھیں سرخ لب زخمی انا گھائل
ترے کردار کی بولی لگی ہے کیا
تری گلیوں سے جو گزرا اسے جاناں
بھلا دنیا کبھی اچھی لگی ہے کیا
یقیناً آج بے پردہ وہ نکلے ہیں
وگرنہ چاندنی پھیکی لگی ہے کیا
نہ دنیا ہے نہ الجھن ہے سکوں ہے بس
ٹھکانے اب مری مٹی لگی ہے کیا
کتابیں گھر مرے سورج سی روشن ہیں
ترے کمرے میں یہ بتی لگی ہے کیا
زباں سے آہ کیا اف تک نہیں نکلی
تو اب کے چوٹ کچھ گہری لگی ہے کیا
مٹا لو گے جہالت کو سکندرؔ تم
تمہیں بھی یہ نئی دھنکی لگی ہے کیا
غزل
بجھے ہو، ہاتھ مایوسی لگی ہے کیا
ارشاد خان سکندر