EN हिंदी
بجھا کے رکھ دے یہ کوشش بہت ہوا کی تھی | شیح شیری
bujha ke rakh de ye koshish bahut hawa ki thi

غزل

بجھا کے رکھ دے یہ کوشش بہت ہوا کی تھی

محسن احسان

;

بجھا کے رکھ دے یہ کوشش بہت ہوا کی تھی
مگر چراغ میں کچھ روشنی انا کی تھی

مری شکست میں کیا کیا تھے مضمرات نہ پوچھ
عدو کا ہاتھ تھا اور چال آشنا کی تھی

فقیہ شہر نے بے زار کر دیا ورنہ
دلوں میں قدر بہت خانۂ خدا کی تھی

ابھی سے تم نے دھواں دار کر دیا ماحول
ابھی تو سانس ہی لینے کی ابتدا کی تھی

شکست وہ تھی کہ جب میری سر بلندی کی
مرے عدو نے مرے واسطے دعا کی تھی

ہم اب غبار مہ و سال کی لپیٹ میں ہیں
ہمارے چہرے پہ رونق کبھی بلا کی تھی