EN हिंदी
بجھا چراغ ہواؤں کا سامنا کر کے | شیح شیری
bujha charagh hawaon ka samna kar ke

غزل

بجھا چراغ ہواؤں کا سامنا کر کے

رفیق راز

;

بجھا چراغ ہواؤں کا سامنا کر کے
بہت اداس ہوا ہوں دریچہ وا کر کے

سکوت ٹوٹ گیا اور روشنی سی ہوئی
شرار سنگ سے نکلا خدا خدا کر کے

کھلا نہ دن کو کسی اسم سے وہ آہنی در
اب آؤ دیکھتے ہیں رات کو صدا کر کے

اڑوں گا خاک سا پہلے پہل اور آخر کار
ہوائے تند کو رکھ دوں گا میں صبا کر کے

وہ جس کے بوجھ سے خم بھی نہ تھی ہماری کمر
ہم آج آئے ہیں وہ قرض بھی ادا کر کے