بجھا چراغ ہواؤں کا سامنا کر کے
بہت اداس ہوا ہوں دریچہ وا کر کے
سکوت ٹوٹ گیا اور روشنی سی ہوئی
شرار سنگ سے نکلا خدا خدا کر کے
کھلا نہ دن کو کسی اسم سے وہ آہنی در
اب آؤ دیکھتے ہیں رات کو صدا کر کے
اڑوں گا خاک سا پہلے پہل اور آخر کار
ہوائے تند کو رکھ دوں گا میں صبا کر کے
وہ جس کے بوجھ سے خم بھی نہ تھی ہماری کمر
ہم آج آئے ہیں وہ قرض بھی ادا کر کے

غزل
بجھا چراغ ہواؤں کا سامنا کر کے
رفیق راز