بجھا بھی جائے کوئی آ کے آندھیوں کی طرح
کہ جل رہا ہوں کئی یگ سے میں دیوں کی طرح
وہ دوستوں کی طرح ہے نہ دشمنوں کی طرح
میں جس کو دیکھ کے حیراں ہوں آئینوں کی طرح
میں اس کو دیکھ تو سکتا ہوں چھو نہیں سکتا
وہ میرے پاس بھی ہوتا ہے فاصلوں کی طرح
وہ آ بھی جائے تو اس کو کہاں بٹھاؤں گا
میں اپنے گھر میں تو رہتا ہوں بے گھروں کی طرح
نہ جانے رات گئے کس کی نقرئی آواز
کھنکتی ہے میرے کانوں میں چوڑیوں کی طرح
غزل
بجھا بھی جائے کوئی آ کے آندھیوں کی طرح
وکیل اختر