EN हिंदी
بجھ رہی ہے آنکھ یہ جسم ہے جمود میں | شیح شیری
bujh rahi hai aankh ye jism hai jumud mein

غزل

بجھ رہی ہے آنکھ یہ جسم ہے جمود میں

طاہر عدیم

;

بجھ رہی ہے آنکھ یہ جسم ہے جمود میں
اے مکین شہر دل آ مری حدود میں

پڑ گئی دراڑ سی کیا درون دل کہیں
آ گئی شکستگی کیوں مرے وجود میں

خواہش قدم کہ ہوں اس طرف ہی گامزن
دل کی آرزو رہے اس کی ہی قیود میں

رنگ کیا عجب دیا میری بے وفائی کو
اس نے یوں کیا کہ میرے خط جلائے عود میں

تو نے جو دیا ہمیں اس سے بڑھ کے دیں گے ہم
بے وفائی اصل زر نفرتوں کو سود میں

بام انتظار پر دیکھتا ہوں دو دیئے
جھانکتا ہوں جب کبھی رفتگاں کے دود میں