بجھ گیا دل حیات باقی ہے
چھپ گیا چاند رات باقی ہے
حال دل ان سے کہہ چکے سو بار
اب بھی کہنے کی بات باقی ہے
اے خوشا ختم اجتناب مگر
محشر التفات باقی ہے
عشق میں ہم سمجھ چکے سب سے
ایک ظالم حیات باقی ہے
ناصحان کرام کے دم سے
شورش کائنات باقی ہے
رات باقی تھی جب وہ بچھڑے تھے
کٹ گئی عمر رات باقی ہے
رحمت بے پناہ کے صدقے
اعتماد نجات باقی ہے
نہ وہ دل ہے نہ وہ شباب خمارؔ
کس لیے اب حیات باقی ہے
غزل
بجھ گیا دل حیات باقی ہے
خمارؔ بارہ بنکوی