EN हिंदी
بجھ گئے شعلے دھواں آنکھوں کو پانی دے گیا | شیح شیری
bujh gae shoale dhuan aankhon ko pani de gaya

غزل

بجھ گئے شعلے دھواں آنکھوں کو پانی دے گیا

سلیم شاہد

;

بجھ گئے شعلے دھواں آنکھوں کو پانی دے گیا
یہ اچانک موڑ دریا کو روانی دے گیا

اب تو اس کی دھوپ میں جلتا ہے میرا تن بدن
کیا ہوا وہ مہر جو صبحیں سہانی دے گیا

جی میں زندہ ہو گئیں کیا خواہشیں بسری ہوئی
پھر کوئی یوسف زلیخا کو جوانی دے گیا

پھر ہوا احساس یوں مجھ کو کہ میں اک نقش ہوں
کون تصویروں کو حکم بے زبانی دے گیا

پیڑ ننگے ہو گئے رستوں پہ پتے ہیں ابھی
ہاں مگر طوفان کچھ یادیں نشانی دے گیا

میں سبک سر تھا ہواؤں کی طرح پر اب نہیں
یک بیک رکنا طبیعت کو گرانی دے گیا

بولتا چہرہ جھکی آنکھیں چھپا مت ہاتھ سے
تیرا چپ رہنا مجھے کیا کیا معانی دے گیا

جیسے میرے پیر موج واپسیں پر جم گئے
ہر نیا لمحہ کوئی صورت پرانی دے گیا

اے لب گویا نہ چھن جائے کہیں یہ ذائقہ
چاٹیے وہ زخم جو شعلہ بیانی دے گیا

میں نے شاہدؔ آئنے میں اپنی صورت دیکھ لی
یہ ذرا سا واقعہ پوری کہانی دے گیا