بوسہ لیا جو چشم کا بیمار ہو گئے
زلفیں چھوئیں بلا میں گرفتار ہو گئے
سکتہ ہے بیٹھے سامنے تکتے ہیں ان کی شکل
کیا ہم بھی عکس آئینۂ یار ہو گئے
بیٹھے تمہارے در پہ تو جنبش تلک نہ کی
ایسے جمے کہ سایۂ دیوار ہو گئے
ہم کو تو ان کے خنجر ابرو کے عشق میں
دن زندگی کے کاٹنے دشوار ہو گئے
غزل
بوسہ لیا جو چشم کا بیمار ہو گئے
حیرت الہ آبادی