EN हिंदी
بوسہ لیا جو چشم کا بیمار ہو گئے | شیح شیری
bosa liya jo chashm ka bimar ho gae

غزل

بوسہ لیا جو چشم کا بیمار ہو گئے

حیرت الہ آبادی

;

بوسہ لیا جو چشم کا بیمار ہو گئے
زلفیں چھوئیں بلا میں گرفتار ہو گئے

سکتہ ہے بیٹھے سامنے تکتے ہیں ان کی شکل
کیا ہم بھی عکس آئینۂ یار ہو گئے

بیٹھے تمہارے در پہ تو جنبش تلک نہ کی
ایسے جمے کہ سایۂ دیوار ہو گئے

ہم کو تو ان کے خنجر ابرو کے عشق میں
دن زندگی کے کاٹنے دشوار ہو گئے