بستر بچھا کے رات وہ کمرے میں سو گیا
سبزہ پہ موسموں کا لہو خشک ہو گیا
گم نام دن کی پچھلی قطاروں کا فاصلہ
آواز کی حدوں سے بہت دور ہو گیا
بائیں طرف کے راستے سانسوں میں بٹ گئے
اگلے قدم کی چاپ پہ وہ خون رو گیا
سورج کا ظلم سر کو جھلستا رہا مگر
دن دھوپ کے اتھاہ سمندر کو ڈھو گیا
سڑکوں کی بھیڑ کھا گئی پہچان فرد کی
سوچوں کا شور شکل کی رونق کو رو گیا
ہر گھر کے راستے میں ندی آ کھڑی ہوئی
ہر راستہ نہ جانے کہاں جا کے کھو گیا
ان پانیوں کے بھید کوئی جانتا نہیں
واپس کبھی نہ لوٹ سکا ان میں جو گیا
غزل
بستر بچھا کے رات وہ کمرے میں سو گیا
صادق