EN हिंदी
بساط عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی | شیح شیری
bisat-e-ijz mein tha ek dil yak qatra KHun wo bhi

غزل

بساط عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی

مرزا غالب

;

بساط عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
سو رہتا ہے بہ انداز چکیدن سرنگوں وہ بھی

رہے اس شوخ سے آزردہ ہم چندے تکلف سے
تکلف بر طرف تھا ایک انداز جنوں وہ بھی

خیال مرگ کب تسکیں دل آزردہ کو بخشے
مرے دام تمنا میں ہے اک صید زبوں وہ بھی

نہ کرتا کاش نالہ مجھ کو کیا معلوم تھا ہمدم
کہ ہوگا باعث افزائش درد دروں وہ بھی

نہ اتنا برش تیغ جفا پر ناز فرماؤ
مرے دریاۓ بے تابی میں ہے اک موج خوں وہ بھی

مئے عشرت کی خواہش ساقی گردوں سے کیا کیجے
لیے بیٹھا ہے اک دو چار جام واژ گوں وہ بھی

مرے دل میں ہے غالبؔ شوق وصل و شکوۂ ہجراں
خدا وہ دن کرے جو اس سے میں یہ بھی کہوں وہ بھی

مجھے معلوم ہے جو تو نے میرے حق میں سوچا ہے
کہیں ہو جائے جلد اے گردش گردون دوں وہ بھی

نظر راحت پہ میری کر نہ وعدہ شب کے آنے کا
کہ میری خواب بندی کے لیے ہوگا فسوں وہ بھی