بساط دل کی بھلا کیا نگاہ یار میں ہے
یہ شیشہ ٹوٹ بھی جائے تو کس شمار میں ہے
یہ جانتے ہیں کہ وہ اس طرف نہ آئے گا
عجب مزا سا مگر اس کے انتظار میں ہے
بس ایک زخم خلش عمر بھر کی تنہائی
وہی تو دو گے تمہارے جو اختیار میں ہے
وہ کھیل کھیلنے بیٹھے ہیں خاتمہ جس کا
تمہاری جیت میں ہے اور ہماری ہار میں ہے
غزل
بساط دل کی بھلا کیا نگاہ یار میں ہے
حسن کمال