EN हिंदी
بساط دل کی بھلا کیا نگاہ یار میں ہے | شیح شیری
bisat dil ki bhala kya nigah-e-yar mein hai

غزل

بساط دل کی بھلا کیا نگاہ یار میں ہے

حسن کمال

;

بساط دل کی بھلا کیا نگاہ یار میں ہے
یہ شیشہ ٹوٹ بھی جائے تو کس شمار میں ہے

یہ جانتے ہیں کہ وہ اس طرف نہ آئے گا
عجب مزا سا مگر اس کے انتظار میں ہے

بس ایک زخم خلش عمر بھر کی تنہائی
وہی تو دو گے تمہارے جو اختیار میں ہے

وہ کھیل کھیلنے بیٹھے ہیں خاتمہ جس کا
تمہاری جیت میں ہے اور ہماری ہار میں ہے