EN हिंदी
بنا مرغے کے پر جھٹکتی ہیں | شیح شیری
bina murghe ke par jhaTakti hain

غزل

بنا مرغے کے پر جھٹکتی ہیں

محمد علوی

;

بنا مرغے کے پر جھٹکتی ہیں
مرغیاں در بہ در بھٹکتی ہیں

نظم اترائے تو بجا بھی ہے
بی غزل کس لیے مٹکتی ہیں

ایک حاسد کی ایک ناقد کی
سر پہ تلواریں دو لٹکتی ہیں

یہ بھی شاعر ہیں ان کے بالوں میں
فکر و فن کی جوئیں بھٹکتی ہیں

علویؔ یہ گولیاں ہیں شہرت کی
یہ گلے میں کہاں اٹکتی ہیں