بکھرا کے ہم غبار سا وہم و خیال پر
پتوں کی طرح ڈولتے پھرتے ہیں مال پر
اپنے ہی پاؤں بس میں نہیں اور یار لوگ
تنقید کر رہے ہیں ستاروں کی چال پر
یہ مال آنچلوں کا سبک سار آبشار
صد موج رنگ و نور ہے لمحوں کی فال پر
بہتے ہجوم شام کے لمحوں کا سیل ہم
رقصاں ہیں ذہن جھومتے قدموں کے تال پر
الجھے ہوئے ہیں بحث میں وارفتگان شام
ہے گفتگو ادب کے عروج و زوال پر
طے رہ گزار پا ہے نہ موضوع گفتگو
وہسکی کے دھندلکے ہیں جواب و سوال پر
غالبؔ کا ذکر تھا ابھی شیلےؔ پر آ گئے
پہنچے ملارمےؔ سے جلال و جمال پر
جھونکوں کے ساتھ ساتھ کوئی طائر خیال
آ بیٹھتا ہے ذہن کی شاداب ڈال پر
گرد سفر سے پیار ہے منزل کا غم نہیں
یوں چل رہے ہیں رہ گذر ماہ و سال پر
چھائے ہوئے ہیں سوچ کے سائے کہیں کہیں
چھٹکی ہوئی ہے چاندنی بام خیال پر
ہر سایہ اپنی اپنی گپھا میں لڑھک گیا
ہم لوگ گھومتے رہے سنسان مال پر
غزل
بکھرا کے ہم غبار سا وہم و خیال پر
رفیق خاور جسکانی