بکھر رہے تھے ہر اک سمت کائنات کے رنگ
مگر یہ آنکھ کہ جو ڈھونڈتی تھی ذات کے رنگ
ہمارے شہر میں کچھ لوگ ایسے رہتے ہیں
سفر کی سمت بتاتے ہیں جن کو رات کے رنگ
الجھ کے رہ گئے چہرے مری نگاہوں میں
کچھ اتنی تیزی سے بدلے تھے ان کی بات کے رنگ
بس ایک بار انہیں کھیلنے کا موقع دو
خود ان کی چال بتا دے گی سارے مات کے رنگ
ہوا چلے گی تو خوشبو مری بھی پھیلے گی
میں چھوڑ آئی ہوں پیڑوں پہ اپنی بات کے رنگ
غزل
بکھر رہے تھے ہر اک سمت کائنات کے رنگ
فاطمہ حسن