EN हिंदी
بکھر ہی جاؤں گا میں بھی ہوا اداسی ہے | شیح شیری
bikhar hi jaunga main bhi hawa udasi hai

غزل

بکھر ہی جاؤں گا میں بھی ہوا اداسی ہے

افتخار امام صدیقی

;

بکھر ہی جاؤں گا میں بھی ہوا اداسی ہے
فنا نصیب ہر اک سلسلہ اداسی ہے

بچھڑ نہ جائے کہیں تو سفر اندھیروں میں
ترے بغیر ہر اک راستا اداسی ہے

بتا رہا ہے جو رستہ زمیں دشاؤں کو
ہمارے گھر کا وہ روشن دیا اداسی ہے

اداس لمحوں نے کچھ اور کر دیا ہے اداس
ترے بغیر تو ساری فضا اداسی ہے

کہیں ضرور خدا کو مری ضرورت ہے
جو آ رہی ہے فلک سے صدا اداسی ہے