بکھر ہی جاؤں گا میں بھی ہوا اداسی ہے
فنا نصیب ہر اک سلسلہ اداسی ہے
بچھڑ نہ جائے کہیں تو سفر اندھیروں میں
ترے بغیر ہر اک راستا اداسی ہے
بتا رہا ہے جو رستہ زمیں دشاؤں کو
ہمارے گھر کا وہ روشن دیا اداسی ہے
اداس لمحوں نے کچھ اور کر دیا ہے اداس
ترے بغیر تو ساری فضا اداسی ہے
کہیں ضرور خدا کو مری ضرورت ہے
جو آ رہی ہے فلک سے صدا اداسی ہے
غزل
بکھر ہی جاؤں گا میں بھی ہوا اداسی ہے
افتخار امام صدیقی