بجلیاں ٹوٹ پڑیں جب وہ مقابل سے اٹھا
مل کے پلٹی تھیں نگاہیں کہ دھواں دل سے اٹھا
جلوہ محسوس سہی آنکھ کو آزاد تو کر
قید آداب تماشا بھی تو محفل سے اٹھا
پھر تو مضراب جنوں ساز انا لیلیٰ چھیڑ
ہائے وہ شور انا القیس کہ محمل سے اٹھا
اختیار ایک ادا تھی مری مجبوری کی
لطف سعی عمل اس مطلب حاصل سے اٹھا
عمر امید کے دو دن بھی گراں تھے ظالم
بار فردا نہ ترے وعدۂ باطل سے اٹھا
خبر قافلۂ گم شدہ کس سے پوچھوں
اک بگولہ بھی نہ خاک رہ منزل سے اٹھا
ہوش جب تک ہے گلا گھونٹ کے مر جانے کا
دم شمشیر کا احساں ترے بسمل سے اٹھا
موت ہستی پہ وہ تہمت تھی کہ آساں نہ اٹھی
زندگی مجھ پہ وہ الزام کہ مشکل سے اٹھا
کس کی کشتی تہ گرداب فنا جا پہنچی
شور لبیک جو فانیؔ لب ساحل سے اٹھا
غزل
بجلیاں ٹوٹ پڑیں جب وہ مقابل سے اٹھا
فانی بدایونی