EN हिंदी
بیت گیا ہنگام قیامت روز قیامت آج بھی ہے | شیح شیری
bit gaya hangam-e-qayamat roz-e-qayamat aaj bhi hai

غزل

بیت گیا ہنگام قیامت روز قیامت آج بھی ہے

شکیل بدایونی

;

بیت گیا ہنگام قیامت روز قیامت آج بھی ہے
ترک تعلق کام نہ آیا ان سے محبت آج بھی ہے

سخت سہی ہستی کے مراحل عشق میں راحت آج بھی ہے
اے غم جاناں ہو نہ گریزاں تیری ضرورت آج بھی ہے

گلشن حسن یار میں کرتے ہیں جو تلاش کیف و سکوں
لاکھ ہے برہم نظم دو عالم زلف میں نکہت آج بھی ہے

نور سحر ہے جان تصور ظلمت شب سے کون ڈرے
لاکھ بنی ہے زیست جہنم سامنے جنت آج بھی ہے

صبح بہار آئی تھی لے کر رت بھی نئی شاخیں بھی نئی
غنچہ و گل سے پیار ہے لیکن شاخ سے نفرت آج بھی ہے

عرض تمنا کر کے گنوایا ہم نے بھرم خودداری کا
ہو گئی گو تکمیل تمنا دل کو ندامت آج بھی ہے

کر کے ستم کی پردہ پوشی ہم نے انہیں بے عیب کیا
ورنہ شکیلؔ اپنے ہونٹوں پر حرف شکایت آج بھی ہے