بیسویں صدی کے ہم شاعر پریشاں ہیں
مسئلوں میں الجھے ہیں فکر و غم میں غلطاں ہیں
ڈوب کر ابھر آئے موت سے گلے مل کر
اپنی سخت جانی کے خود ہی ہم نگہباں ہیں
ہم تو ٹھہرے دیوانے ہم تو ٹھہرے صحرائی
اہل فہم و دانش کے چاک کیوں گریباں ہیں
کب حساب مانگا تھا آپ کی جفاؤں کا
کیوں جھکی جھکی نظریں کس لیے پشیماں ہیں
آج تک ہے غم تازہ دوست سے بچھڑنے کا
اب بھی آنکھیں روتی ہیں زخم دل فروزاں ہیں
سب کے ہم رہے اپنے کون ہے مگر اپنا
ڈھونڈھتے ہیں اپنوں کو ہم بھی کتنے ناداں ہیں
طاہرہؔ زمانے کی کروٹوں کا کیا کہنا
ہوں گے یہ بھی ویرانے آج جو گلستاں ہیں
غزل
بیسویں صدی کے ہم شاعر پریشاں ہیں
بانو طاہرہ سعید