بینائی کو پلکوں سے ہٹانے کی پڑی ہے
شہکار پہ جو گرد زمانے کی پڑی ہے
آساں ہوا سچ کہنا تو بولے گا مورخ
فی الحال اسے جان بچانے کی پڑی ہے
چھوٹا سا پرندہ ہے مگر سعی تو دیکھو
جنگل سے بڑی آگ بجھانے کی پڑی ہے
چھلنی ہوا جاتا ہے ادھر اپنا کلیجا
یاروں کو ادھر ٹھیک نشانے کی پڑی ہے
حالات شہابؔ آنکھ اٹھانے نہیں دیتے
بچوں کو مگر عید منانے کی پڑی ہے

غزل
بینائی کو پلکوں سے ہٹانے کی پڑی ہے
شہاب صفدر