بیمار سا ہے جسم سحر کانپ رہا ہے
یہ کس نے اجالوں کا لہو چوس لیا ہے
اے دوست تری یاد کا مہتاب درخشاں
اب یاس کی گھنگھور گھٹاؤں میں چھپا ہے
اس دور میں سنسان سے ہیں بام و در زیست
نغموں نے خموشی کا کفن اوڑھ لیا ہے
سناٹوں کے کف پر مری تصویر بنی ہے
تنہائی کے آنچل پہ مرا نام لکھا ہے
میں شہر کی جلتی ہوئی سڑکوں پہ کھڑا ہوں
وہ دشت میں خاروں میں مجھے ڈھونڈ رہا ہے

غزل
بیمار سا ہے جسم سحر کانپ رہا ہے
سلیمان خمار