بیمار ہیں تو اب دم عیسیٰ کہاں سے آئے
اس دل میں درد شوق و تمنا کہاں سے آئے
بے کار شرح لفظ و معانی سے فائدہ
جب تو نہیں تو شہر میں تجھ سا کہاں سے آئے
ہر چشم سنگ کذب و عداوت سے سرخ ہے
اب آدمی کو زندگی کرنا کہاں سے آئے
وحشت ہوس کی چاٹ گئی خاک جسم کو
بے در گھروں میں شکل کا سایہ کہاں سے آئے
جڑ سے اکھڑ گئے تو بدلتی رتوں سے کیا
بے آب آئینوں میں سراپا کہاں سے آئے
سایوں پہ اعتماد سے اکتا گیا ہے جی
طوفاں میں زندگی کا بھروسہ کہاں سے آئے
غم کے تھپیڑے لے گئے ناگن سے لمبے بال
راتوں میں جنگلوں کا وہ سایہ کہاں سے آئے
ناہیدؔ فیشنوں نے چھپائے ہیں عیب بھی
چشمے نہ ہوں تو آنکھ کا پردہ کہاں سے آئے
غزل
بیمار ہیں تو اب دم عیسیٰ کہاں سے آئے
کشور ناہید