بیم و رجا میں قید ہر اک ماہ و سال ہے
جیسے یہ زندگی بھی کوئی یرغمال ہے
الجھا ہوں آتی جاتی صداؤں سے بارہا
بچھڑا ہوں ہر نوا سے کہ خواب و خیال ہے
ٹوٹا ہوں اس طرح کہ بکھرتا چلا گیا
بکھرا ہوں اس طرح کہ سنورنا محال ہے
اس جبر و اختیار سے پامال میں بھی ہوں
اے روح احتجاج بتا کیا خیال ہے
ویران رہ گزار پہ اڑتی ہے روز خاک
اب تک مری تلاش میں باد شمال ہے
صورت گری کے شوق نے گمراہ کر دیا
اب میں مری جبیں مرا دست سوال ہے
بس یوں ہی مت گزر کبھی صہبا سے بات کر
کہتے ہیں اس سے ملنا بڑا نیک فال ہے

غزل
بیم و رجا میں قید ہر اک ماہ و سال ہے
صہبا وحید