بچھڑتے دامنوں میں اپنی کچھ پرچھائیاں رکھ دو
سکوت زندگی میں دل کی کچھ بے تابیاں رکھ دو
کہیں ایسا نہ ہو میں دور خود اپنے سے ہو جاؤں
میری ہستی کے ہنگاموں میں کچھ تنہائیاں رکھ دو
مرے افکار ہو جائیں نہ فرسودہ زمانے میں
نگاہوں سے تم اپنے ان میں کچھ گہرائیاں رکھ دو
مرا ہر اضطراب دل نشاں منزل کا بن جائے
تمناؤں میں میری حسن کی انگڑائیاں رکھ دو
رہے باقی نہ پھر سود و زیاں کا مسئلہ کوئی
مرے خرمن میں اپنے ہاتھ سے چنگاریاں رکھ دو
کسی کو بخش دو عزت کسی کو سیم و زر دے دو
مرے حصے میں راہ عشق کی رسوائیاں رکھ دو
کسی بھی غیر کی جانب نظر اٹھے فرازؔ اب کیوں
نگاہوں میں تم اس کی اپنی سب رعنائیاں رکھ دو
غزل
بچھڑتے دامنوں میں اپنی کچھ پرچھائیاں رکھ دو
فراز سلطانپوری