بچھڑنا مجھ سے تو خوابوں میں سلسلہ رکھنا
دیار ذہن میں دل کا دیا جلا رکھنا
پلٹ کے آئیں گے موسم تو تم کو لکھوں گا
کتاب دل کا ورق تم ذرا کھلا رکھنا
میں چاہتا ہوں وہ آنکھیں جو روز ملتی ہیں
کبھی تو مجھ سے کہیں ہم پہ آسرا رکھنا
بدن کی آگ سے جھلسے نہ جسم روحوں کا
قریب آ کے بھی تم مجھ سے فاصلہ رکھنا
اداس لمحوں کے موسم گزر ہی جائیں گے
کسی کی بات کا اب دل میں کیا گلہ رکھنا
جو چل پڑے ہو مرے ساتھ تپتی راہوں پر
کہیں اتار کے پھولوں کی یہ قبا رکھنا

غزل
بچھڑنا مجھ سے تو خوابوں میں سلسلہ رکھنا
فاروق بخشی