EN हिंदी
بچھڑ گئے تھے کسی روز کھیل کھیل میں ہم | شیح شیری
bichhaD gae the kisi rose khel khel mein hum

غزل

بچھڑ گئے تھے کسی روز کھیل کھیل میں ہم

شوزیب کاشر

;

بچھڑ گئے تھے کسی روز کھیل کھیل میں ہم
کہ ایک ساتھ نہیں چڑھ سکے تھے ریل میں ہم

ذرا سا شور بغاوت اٹھا اور اس کے بعد
وزیر تخت پہ بیٹھے تھے اور جیل میں ہم

پتہ چلا وہ کوئی عام پینٹنگ نہیں ہے
اور اس کو بیچنے والے تھے آج سیل میں ہم

جفا کی ایک ہی تیلی سے کام ہو جاتا
کہ پورے بھیگے ہوئے تھے انا کے تیل میں ہم

جو شر پسند ہیں نفرت کے بیج بوتے رہیں
جٹے رہیں گے محبت کی داغ بیل میں ہم

بس ایک بار ہمارے دلوں کے تار ملے
پھر اس کے بعد نہیں آئے تال میل میں ہم

یہ شاعری تو مری جاں بس اک بہانہ ہے
شریک یوں بھی نہیں ہوتے کھیل ویل میں ہم

سخن کا توسن چالاک بے لگام نہیں
ہمیں ہے پاس روایت سو ہیں نکیل میں ہم

وہاں ہمارے قبیلوں میں جنگ چھڑ گئی تھی
سو تھر کے بھاگے ہوئے آ بسے تھے کیل میں ہم

یہ ایک دکھ تو کوئی مسئلہ نہیں کاشرؔ
پلے بڑے ہیں اسی غم کی ریل پیل میں ہم