EN हिंदी
بھولی ہوئی راہوں کا سفر کیسا لگے گا | شیح شیری
bhuli hui rahon ka safar kaisa lagega

غزل

بھولی ہوئی راہوں کا سفر کیسا لگے گا

طارق بٹ

;

بھولی ہوئی راہوں کا سفر کیسا لگے گا
اب لوٹ کے جائیں گے تو گھر کیسا لگے گا

ہنگامۂ ہستی سے نمٹ کر جو چلیں گے
وہ نیند کا خاموش نگر کیسا لگے گا

اس نے تو بلایا ہے مگر سوچ رہا ہوں
محفل میں کوئی خاک بسر کیسا لگے گا

اندھے ہیں جو دنیا کی چکا چوند سے ان کو
سورج کا سوا نیزے پہ سر کیسا لگے گا

جس روز کہ خوابوں میں کوئی شکل نہ ہوگی
بے چہرگیٔ خواب سے ڈر کیسا لگے گا