بھولی بسری یادوں کی بارات نہیں آئی
اک مدت سے ہجر کی لمبی رات نہیں آئی
آتی تھی جو روز گلی کے سونے نکڑ تک
آج ہوا کیا وہ پرچھائیں سات نہیں آئی
مجھ کو تعاقب میں لے آئی اک انجان جگہ
خوشبو تو خوشبو تھی میرے ہات نہیں آئی
اس دنیا سے ان کا رشتہ آدھا ادھورا ہے
جن لوگوں تک خوابوں کی سوغات نہیں آئی
اوپر والے کی من مانی کھلنے لگی ہے اب
مینہ برسا دو چار دفعہ برسات نہیں آئی
غزل
بھولی بسری یادوں کی بارات نہیں آئی
شہریار