EN हिंदी
بھولی بسری خواہشوں کا بوجھ آنکھوں پر نہ رکھ | شیح شیری
bhuli-bisri KHwahishon ka bojh aankhon par na rakh

غزل

بھولی بسری خواہشوں کا بوجھ آنکھوں پر نہ رکھ

رونق رضا

;

بھولی بسری خواہشوں کا بوجھ آنکھوں پر نہ رکھ
خوبصورت آئینوں میں غم کا پس منظر نہ رکھ

دیکھ بڑھ کر شوخیاں موجوں کی اور قسمت کا کھیل
کشتیاں دریا کے سنجیدہ کناروں پر نہ رکھ

یا تو اڑ جا ساتھ لے کر قید کی مجبوریاں
ورنہ اپنی جرأتوں کا نام بال و پر نہ رکھ

ہم تو سر رکھتے ہیں سجدوں کے لیے مجبور ہیں
تو اگر سجدوں کا قاتل ہے تو سنگ در نہ رکھ

دینے والے سر دیا ہے تو کوئی سودا ابھی دے
ورنہ ان کاندھوں پہ یہ بے کار بار سر نہ رکھ

بے وفائی کی علامت بن چکے اصنام سب
دل کے بت خانے میں رونقؔ اب کوئی پتھر نہ رکھ