EN हिंदी
بھولی بسری بات ہے لیکن اب تک بھول نہ پائے ہم | شیح شیری
bhuli-bisri baat hai lekin ab tak bhul na pae hum

غزل

بھولی بسری بات ہے لیکن اب تک بھول نہ پائے ہم

صدیق مجیبی

;

بھولی بسری بات ہے لیکن اب تک بھول نہ پائے ہم
مٹھی بھر تاروں کی خاطر اپنا چاند گنوائے ہم

اب تو تمہارے حصے کا بھی پیار ہمیں کرنا پڑتا ہے
تم سے سن کر جتنے قصے یاد تھے سب دہرائے ہم

تم ہوتے تو بیتابی سے ہم کو لگا لیتے سینے سے
جن راتوں میں دکھ جھیلے ہیں جن میں رنج اٹھائے ہم

نیند کہاں اب تو رہتی ہے آنکھوں میں زہراب کی دھند
مٹی کا دل چیر کے سارے خوابوں کو داب آئے ہم

رات ملی تو دے گئی ہم کو تھوڑی سی پہچان
سورج سورج دن چمکا تو ہو گئے آپ پرائے ہم

جھوٹی سی اک آس پہ شاید پوچھ لے کوئی دل کا حال
چہرے کا کشکول لیے پھرتے ہیں روپ بنائے ہم