بھولے سے کبھی لے جو کوئی نام ہمارا
مر جائے خوشی سے دل ناکام ہمارا
لے جاتی ہے اس سمت ہمیں گردش دوراں
اے دوست خرابات سے کیا کام ہمارا
کر لیتے ہیں تخلیق کوئی وجہ اذیت
بھاتا نہیں خود ہم کو بھی آرام ہمارا
اے گردش دوراں یہ کوئی سوچ کی رت ہے
کمبخت ابھی دور میں ہے جام ہمارا
اس بار تو آیا تھا ادھر قاصد جاں خود
سرکار کو پہنچا نہیں پیغام ہمارا
پہنچائی ہے تکلیف بہت پہلے ہی تجھ کو
اے راہنما ہاتھ نہ اب تھام ہمارا
اے قافلۂ ہوش گنوا وقت نہ اپنا
پڑتا نہیں کچھ ٹھیک ابھی گام ہمارا
دیکھا ہے حرم تیرا مگر ہائے رے زاہد
مہکا ہوا وہ کوچۂ اصنام ہمارا
غلمان بھی جنت کے بڑی چیز ہیں لیکن
توبہ مری وہ ساقیٔ گلفام ہمارا
گل نوحہ کناں و صنم دست بہ سینہ
اللہ غنی! لمحۂ انجام ہمارا
کر بیٹھے ہیں ہم بھول کے توبہ جو سحر کو
شیشے کو تعاقب ہے سر شام ہمارا
مے پینا عدمؔ اور قدم چومنا ان کے
ہے شغل یہی اب سحر و شام ہمارا
غزل
بھولے سے کبھی لے جو کوئی نام ہمارا
عبد الحمید عدم