بھول پائے نہ تجھے آج بھی رونے والے
تو کہاں ہے مری آنکھوں کو بھگونے والے
ہم کسی غیر کے ہو جائیں یہ ممکن ہی نہیں
اور تم تو کبھی اپنے نہیں ہونے والے
سوچتے ہیں کہ کہاں جا کے تلاشیں ان کو
ہم کو کچھ دوست ملے تھے کبھی کھونے والے
ریت کے جیسا ہے اب تو یہ مقدر میرا
خود بکھر جائیں گے اب مجھ کو پرونے والے
درد اور اشک زمانہ میں ازل سے ہیں وہی
صرف بدلے ہیں ہر اک دور میں رونے والے
پیڑ کو اپنا ہی سایہ نہیں ملتا لوگو
فصل اپنی کبھی پاتے نہیں بونے والے
درد غیروں کا بھلا کون اٹھاتا ہے سحابؔ
سب یہاں خود کی صلیبوں کو ہیں ڈھونے والے
غزل
بھول پائے نہ تجھے آج بھی رونے والے
اجے سحاب