بھول کر تو سارے غم اپنے چمن میں رقص کر
جاگ اے درویش جاں میرے بدن میں رقص کر
ڈال کر چادر وفا کی تو مزار عشق پر
دار منصوری پہ آ اس پیرہن میں رقص کر
تو گریباں چاک جو نکلا ہے غم کی بھیڑ میں
جا چلا جا چھوڑ سب تو اس کے من میں رقص کر
بارگاہ حسن میں جھک کر سلامی پیش کر
باندھ کر گھنگرو گلوں کے بانکپن میں رقص کر
کس لیے جلنے نہیں دیتی چراغوں کو مرے
اے ہوا تو جا کہیں کوہ و دمن میں رقص کر
یہ رموز معرفت تجھ پر عیاں ہوں گے تبھی
پی طریقت کا سبو اور اس اگن میں رقص کر
غزل
بھول کر تو سارے غم اپنے چمن میں رقص کر
آصف انجم