بھول گیا خشکی میں روانی
دریا میں تھا کتنا پانی
گونج رہی ہے سناٹے میں
ایک صدا جانی پہچانی
سردی گرمی بارش پت جھڑ
ساری رتیں ہیں آنی جانی
یادیں ہاتھ چھڑا لیتی ہیں
ہو جاتی ہے بات پرانی
دونوں جلے بھی دونوں بجھے بھی
ایک ہوئے جب آگ اور پانی
پھر دکھ جی کو لگ جاتا ہے
ساتھ نہیں دیتی حیرانی
اندھیاروں کی عادی دنیا
مانگے سورج سے تابانی
اک لمحہ قدموں سے لپٹ کر
لوٹ گئی موج امکانی
غزل
بھول گیا خشکی میں روانی
ارمان نجمی